سبھاش چوپڑا
پاکستان کے سوات وادی میں طالبان کے
15 سالہ اسکولی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ کے بعد اس سے عالمی سطح پر کی
جانے والی ہمدردی اور بین الاقوامی یوم ملالہ منانے اور نوبل امن کے لیے اسے نامزد
کرنے کی دنیا بھر میں کی جانے والی اپیلوں کے باوجود جہاں پاکستان میں بالکل
خاموشی ہے وہیں طالبان انتہا پسند اپنی بندوقوں کے دہانے نئے اہداف پر کھول رہے
ہیں۔ایک صحافی جوڑے سرمد منظوراور ان کی اہلیہ ماروی سرمد پر اس وقت تین گولیاں
داغی گئیں جب وہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے جا
رہے تھے۔ خوش قسمتی سے سرمد منظور، جو ساوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن سے
وابستہ ہیں، اور ان کی اہلیہ اس قاتلانہ حملہ میں بال بال بچ گئے۔لیکن پشاور میں
مقیم طالبان مخالف امن کمیٹی کے سربراہ عبد الرحمٰن خوش قسمت نہیں تھے۔ وہ لوور
ڈیر ڈسٹرکٹ کے فضل آباد قصبہ میں ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہو گئے۔ وہ اس مضافاتی علاقہ
کے ناظم تھے۔چند روز بعد ہی پشاور میں ایک پولس سپرنٹنڈنٹ کا گولی مار دی گئی۔
انتہا پسندوں نے مہمند قبائلی خطہ میں ایک سرکاری اسکول کو بھی بم سے اڑا دیا۔
بھلے ہی ان حملوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ ہو یا یہ ایک دوسرے سے مربوط نہ
ہوں لیکن یہ سارے حملے ملالہ پر قاتلانہ حملہ کے محض چند روز بعد ہی کیے گئے۔
ملالہ پر حملہ نے پورے پاکستانی عوام
اور بیرونی دنیا کو اس طرف متوجہ کر دیا اور سب کو ہلاکر رکھ دیا لیکن حکومت
پاکستان کے بیباکانہ و دلیرانہ الفاظ سے قطع نظر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے زیر
انتظام و کمان شمالی وزیرستان میں موجود طالبان اور القاعدہ انتہا پسندوں کے خلاف
کارروائی کرنے میں تذبذب کا اظہار کر رہی ہے۔ ملالہ کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی
بیٹی پر حملہ ان کے ملک کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ لیکن حالات اس بات کے مظہر ہیں کہ
ابھی پاکستان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز
ہوا ہے۔ نہیں معلوم پاکستان کو کب احساس ہوگا اور وہ کب یہ کہے گا کہ اب بہت ہوچکا۔
پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے
لیڈروں نے پہلے تو سوات وادی کی اس اسکول طالبہ پر حملہ کی خوب مذمت کی لیکن کسی
نے بھی یہ نہیں کہا کہ شمالی وزیر ستان میں طالبان کے ان مضبوط ٹھکانوں کے خلاف
فیصلہ کن کارروائی کی جائے جہاں سے طالبان جب چاہتے ہیں نکل کر فوجی و غیر فوجی
نشانوں پر حملے کر دیتے ہیں ۔حکومت پاکستان کے فی الواقع عملاً قائد اور فوجی
سربراہ جنرل پرویز اشفاق کیانی ملالہ کو مزید علاج کے لیے برطانیہ بھیجے جانے سے
قبل اسپتال میں اس کی عیادت کے بعد ایک عجیب خاموشی اختیار کر لی۔ حیرت نہیں بلکہ
افسوس ہے کہ لندن مقیم متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) سربراہ الطاف حسین کو چھوڑ
کر تمام سیاسی لیڈران کسی کارروائی کے لیے نہیں بلکہ کسی اقدام پر اتفاق رائے کے
لیے ایک دوسرے کا منھ تکتے ہیں۔ الطاف حسین نے تو ایم کیو ایم کو یہاں تک کہہ دیا
تھا کہ وہ ملک گیر پیمانے پر یہ معلوم کرے کہ پاکستانی قوم جناح کا سیکولر پاکستان
چاہتی ہے یا طالبانی پاکستان۔ لیکن یہ سوچ کر کہ ایم کیو ایم کے لیے یہ ایک مشکل
کام ہوگا الطاف نے اسے کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر دیا۔
صدر آصف علی زرداری جنہوں نے اسلام
آباد میں ساوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن (سافما) کے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے
انتہا پسندوں کے خلاف زبردست زہر اگلا تھا، اب اس ضرورت پر زور دے رہے ہیں کہ
وزیرستان میں طالبان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اتفاق رائے پیدا کیا
جائے۔
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
بھی تک تو کوئی سامنے نہیں آیا۔ گذشتہ سال جنوری میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر
اور تین ماہ بعد توہین مذہب قانون کے معاملہ پر وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور
شہباز بھٹی کے قتل کے واقعات بھی حکومت وقت کو کارروائی پر اکسانے یا اسے
جھنجھوڑنے میں بری طرح ناکام رہے اور ایسی بہیمانہ وارداتوں کے بعد بھی حکومت ٹس
سے مس نہ ہوئی۔ بلکہ فوجی و غیر فوجی لیڈروں کی اکثریت نے انتہائی احتیاط کا
مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی پر اسرار خاموشی اختیار کرلی۔
جس بے جگری اور دلیری کے ساتھ کئی
سالوں سے طالبان سرکاری اداروں پر حملے کر رہے ہیں وہ ہوش اڑا دینے والے ہیں۔
انہوں نے مارچ2009میں لاہور میں پولس اکیڈمی پر حملہ کیا۔ اس سے ایک ہفتہ قبل
انہوں نے قومی راجدھانی اسلام آباد میں ایک پولس کمپلیکس پر دھاوا بولا۔ اسی مہینے
انہوں نے فیڈرل انویسٹی گیشن کمپلیکس پر حملہ کیا۔ اسی سال اکتوبر میں فوجی شہر
راولپنڈی میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ اور دو روز تک راولپنڈی طالبان کے
محاصرہ میں رہا اور اس دوران ہوئی جھڑپ میں22افرادہلاک ہو گئے۔
گذشتہ سال مئی کا مہینہ اور بھی
خطرناک ثابت ہوا جس میں انتہا پسندوں نے ملک کے سب سے بڑے اداروں پر حملے کر
دیے۔ایک حملہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے قریب فرنٹئیر کانسٹبلری ہیڈ کوارٹر پر
ہوا ۔اس کے بعد پشاور میں ہی ایک پولس کمپلیکس پر ہوا جس میں 6افراد مارے گئے۔ اسی
مہینے میں کراچی کے مہران بحری اڈے پر ہوا ۔ یہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور
17گھنٹے تک دونوں طرف سے گولیاں چلتی رہیں جس میں14افراد ہلاک ہو گئے جن میں10فوجی
شامل تھے۔ اس تصادم میں20دیگر زخمی ہوئے۔چار دہشت گردوں کو، جن میں ایک خود کش
بمبار تھا، بحریہ کے اس اڈے کے اندر کی پوری معلومات تھیں۔ پاکستان طالبان نے،
جنہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، بے دھڑک میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ یہ
القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی چھاپہ ماروں کی کارروائی میں ہلاکت پر
انتقامی کارروائی ہے۔
اس سال بھی اب تک کئی دہشت گردانہ
حملے ہو چکے ہیں۔ جولائی میںگجرات شہر کے قریب ایک فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا
جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔اگست میں منہاس ایر بیس کامرہ پر حملہ کیا گیا جس میں
دو فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوئے جبکہ فوج کی جوابی کارروائی میں9انتہا پسند بھی
مارے گئے۔کراچی کے نیوی بیس پر حملہ، بے نظیر بھٹو کا قتل اور طالبان کے ساتھ آئے
روز ہونے والے تصادم میں تین ہزار فوجیوں کی ہلاکت کے علاوہ تقریباً40ہزار غیر
فوجیوں کی ہلاکت جیسے شاق گذرنے والے واقعات شاید تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ حالیہ
دہشت گردانہ وارداتوں میں اسکولی طالبہ ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہی اب تازہ ترین
واقعہ ہے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ پربھی کیا دنیا کی توجہ وقتی ہے اور چند روز میں
اس واقعہ کو بھی فراموش کر دیا جائے گا؟ پاکستان میں روشن خیال طبقہ اور بیرون ملک
ان کے دوست احباب یہ معلوم کر رہے ہیں کہ کیا پاکستان پانی سر سے گذر جانے کا
انتظار کر رہا ہے۔
پاکستان کے زنگریزی روزنامہ ڈیلی
ٹائمز میں ایک رائٹر نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے لیے اتفاق رائے پیدا
کرنے کی حکمراں جماعت پی پی پی کی تجویز کو ” شتر مرغ کے ریت میں منھ چھپانے جیسے رویہ“ اختیار کرنے کا صرف حکمراں پی پی پی اتحاد کو مورد الزام نہیں ٹہرایا بلکہ
کرکٹر سے سیاست داں بننے والے عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف( پی ٹی آئی) ، سابق
وزیر اعظم نواز شریف سمیت مسلم لیگ کے مختلف گروپ اور جماعت اسلامی کے کئی گروپ کو
بھی راہ فرار اختیار کرنے والی پارٹیوں سے تعبیر کیا کیونکہ وہ بھی اتفاق رائے
قائم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں۔
اتفاق رائے، جس کا دوسرا نام عدم
کارروائی ہے، کی تجویز یا راستہ اگلے دو چار ماہ میںہونے والے عام انتخابات
میںطالبان نواز ووٹروں کی ناراضگی کے خوف کی وجہ سے پیش کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر
مئی 2011میں امریکی کمانڈوز کی کارروائی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھڑک
اٹھنے والے امریکہ مخالف جذبات کا،پاکستان میں، جس کی نصف آبادی طالبان نواز ہے ،
بنیاد پرست عناصر شریعت اور اسلام کے نام پر استحصال کر رہے ہیں۔
اس وقت جب سب کی نگاہیں ہونے والے
انتخابات پر ٹکی ہیں اور بہت سی پارٹیوں کو اپنے ووٹ بنک سے محروم ہونے کا اندیشہ
ستا رہا ہے پاکستانی فوج دور سے ہی سکون کے ساتھ انتظار کر رہی ہے۔آج سول سوسائٹی
اور بالعموم پوری دنیا استفسار کر رہی ہے کہ :کیا پاکستان نے ملالہ موقع ضائع کر
دیا اور کسی فیصلہ کن نکتہ پر پہنچنے کے لیے اسے اور کتنا وقت لگے گا۔
No comments:
Post a Comment