Wednesday, 13 February 2013

Shaheed Sangat Sana


قومی جدوجہد میں شہید ثناءسنگت کا مقام

تحریر:میرک جان 

موجودہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی ایک قومی طاقت کے ساتھ ابھرکر سامنے آئی جس نے بہت کم اور مختصر مدت میں بڑی پزیرائی حاصل کرلی اور پہلی مرتبہ بلوچ عوام نے ہر سطح پر تحریک کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ آزادی کی موجودی لہر سے بڑی توقعات اور امیدیں بھی وابستہ کرلیں۔تربت میں بی ایس او کی کونسل سیشن میں شکست وریخت یا انقلابی تحریک کی نئی صف بندی سے ڈاکٹر اللہ نزر کی قیادت میں بلوچ نوجوان بڑی چاہ کے ساتھ جوق در جوق تحریک سے منسلک ہوگئے جس نے بعد میں یا آج ایک مظبوط شکل وصورت میں عوام کواجتماعی طور پر منظم کررکھا ہے (اندرونی چپقلش یا تضادات کو ابھار کر غلط فہمیاں پیدا کرنے والے عناصر زیر بحث نہیں )بحرل حال مجموعی طور پر بلوچ سماج آزادی کی موجودہ تحریک اور قیادت جن میں نواب خیر بخش ،ڈاکٹر اللہ نزر،حیر بیار مری ،براہمدگ بگٹی قابل زکر ہیں پر متفق ہیں اگر کوئی بڑی بد بختی آڑے نہ آئی تو عوام کا اعتماد ان کے ساتھ ہوگا ۔بی ایس او کی تشکیل کے بعد ڈاکٹر اللہ نزر کی قابل رشک قیادت نے اس سیاسی جمود کو فوری طور پر توڑ کر ناکارہ بنادیا جسے پارلیمنٹ کے دلداہ بے ضمیر رہبروں نے گروہی عیاشیوں کی خاطر قومی سوچ و فکر کا لبادہ اوڑھا کر اپنی سلامتی کی خاطر برقرار رکھا تھا ۔ڈاکٹر کی اغواءنما گرفتاری اور بعد میں بی ایس او آذاد کی ایک انضمامی مراحل کے بعد قیام نے بلوچ نوجوانوں کو مزید منظم کردیا اور ان پر آشوب حالات میں چند قابل فکر لیڈر ابھر کر سامنے آئے جن کی بدولت بی ایس او روز بروز مظبوط،منظم اور سیاسی اعتبار سے ایک قوت بنتی چلی گئی۔ان پر آشوب انقلابی حالات میں جہاں مزاحمتی تحریک اپنی قومی خد خال کے ساتھ دنیا کو متوجہ کررہی تھی بی ایس او کی ناقابل شکست لیڈرشپ زاکر مجید،بشیر زیب ،گہار کریمہ ،کامریڈ کمبر چاکر اور سنگت ثناءشہید کی صورت میں قومی سطح پر بلوچ عوام کو یہ اعتماد دینے میں کامیاب ہورہی تھی کہ اب گروہی یا زاتی مفادات کا حامل کوئی مداری نما سیاست دان ان کے ارمانوں کا سوداگر نہیں ہوسکتابی ایس او کی مرکزی قیادت میں شامل سنگت ثناءجو قبائلی معاشرے سے نکل کر قومی جہد کا حصہ بن گئے تھے اپنی اٹوٹ جدوجہد اور ناقابل شکست افکار کی بدولت واقعی ایک اہم لیڈر بن بن گئے وہ بی ایس او میں ڈاکٹر اللہ نزر اور زاکر مجید کے بعد واحد رہنما تھے جنہوں نے کسی بھی دوسرے رہنما کی نسبت پورے بلوچستان کا تنظیمی دورہ کیا ہر زون حتی کہ کم وبیش بی ایس او کے ہر یونٹ تک آپ نے دورہ کر کے نوجوانوں کو منظم کرنے میں رہبرانہ قومی کردار ادا کیا ۔اس دوران جب ثناءسنگت مرکزی قائد کی غیر موجودگی میں زاکر جان کے ساتھ سر فیس سیاست میں بلوچ عوام بالخصوص نوجوانوں کو کو تحریک سے جوڑ رہے تھے ان کے دامن کو بہت حوالوں سے داغدار کرانے کی کوشش بھی کی گئی ۔جہد مسلسل کے اس ناقابل شکست رہبر کو جن کا رابطہ تنظیم کے ہر کارکن تک یکساں تھا ہم جیسے لوگوں نے کھبی قبائلی شخص،کھبی زاتی نمائش کا پیرو کار اور پتہ نہیں کیا کیا القابات سے نوازمگر وہ ان سب کے باوجود اپنے کمٹمنٹ پر ثابت قدم رہے ۔ثناءسنگت کی سیاسی کمٹمنٹ یا بالغ نظری اور قومی سوچ و فکر بی این ایف کی تشکیل اور اسے اپنی زندگی میں شہید غلام محمد کے ساتھ قومی پلیٹ فارم کی حد تک کامیاب بنانے میں کسی سے ڑھکی چھپی نہیں جبکہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بی ایس او کا انقلابی رول اور دنیا کو فاشسٹ ریاست کے مکروہ صورت سے آشکار کرانے میں اس عظیم انقلابی رہبر نے نمایاں کردار ادا کیا ۔جس وقت نواب اکبر خان شہید کردیئے گئے اس وقت شہید کامریڈ ثناءسنگت تنظیمی زمہ داریوں کو نبھانے کے لئے تربت زون کے دورے پر تھے وہاں انہوں نے اکبر خا ن کی شہادت کے رد عمل میں ریاست کے خلاف سیاسی انداز میں جس قابل زکر انداز میں نوجوانوں کو منظم کیا وہ تاریخ کا ایک حصہ ہے اس دوران تربت پولیس نے اس انقلابی رہبر کو احتجاجی جلوس کی قیادت کے کرتے ہوئے گرفتار کرلیا جہاں میرے ایک دوست پولیس افسر کے کے بقول رات کی تاریکیوں میں ثناءسنگت پر ناقابل زکر تشدد کیا جاتا تھا اور خفیہ اداروں کے اہلکار جیل آکر خود ان پر تشدد کرتے اس دوست کے بقول مگر اپنے زخموں اور تشدد پر اس نے کھبیاف تک نہ کیا ثناءسنگت کے ساتھ کچھ اور سیاسی رہنما بھی جیل میں بند تھے مگر ان سب اور شہید ثناءسنگت میں تشدد سہنے میں زمین آسمان کا فرق تھا اس دوست کے مطابق انہوں نے جیل میں مقامی پولیس اہلکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے انقلابی حالات پر جامع لیکچر دیا اور بطور بلوچ انہیں قومی زمہ داریوں کااحساس دلایا بعد میں چند بلوچ پولیس اہلکاروں نے ثناءسنگت پر تشددکرنے سے انکار کردیا ۔زاتی یا گروہی مفادات کو پرے رکھ قومی جہد سے اصولی کمٹ منٹ پر شہید کی بالغ نظری ااور کمٹمنٹ کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ جب بی ایس او کا قومی کونسل سیشن کوئٹہ میں منعقد ہورہاتھا اس دوران ان کے خلاف کافی لابنگ کی جارہی تھی اور آپ کو ان سب کا اندازہ بھی تھا چونکہ ہر زون اور ہر یونٹ سے آپ کی قربت تھی اس صورت میں بطور مرکزی چیئرمین شہید کے چانس زیادہ تھے مگر جس طرح ان کے خلاف کام کیاگیا وہ چیئرمین نہ بن سکے مگر کونسلران کی ایک بڑی اکثریت ساتھ ہونے کے باوجود انہوں نے وہ قدم اٹھانے سے گریز کیا جو ہمیشہ نالائق اور شکست خوردہ عناصر انقلابی تنظیم کے سینے پر چھرا گھونپ کر اسے تقسیم کے مرحلے سے گزارتے تھے اگر شہید چاہتے تو اس دن وہ بھی ایسا کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنی شکست کے بعد ایک تاریخی تقریر کی جو آج تک یوب ٹیوب پر موجود ہے جس کی بدولت بی ایس او تقسیم سے بچ گئی اور مذید منظم شکل میں قومی جہد کو ابھارنے میں کامیاب رہی۔ بی ایس او سے فراغت کے بعد شہید ثناءسنگت نے بی آر پی کے پلیٹ فارم سے انقلابی عمل جاری رکھا اور اس وقت تک وہ قومی تحریک سے جڑے رہے جب اس فاشسٹ اور دہشت گرد ریاست نے شہید کے قومی خیالات اور جہد سے خائف ہو کر آپ کو اغواءکیا ۔اغواءکے غالبا دو سال بعد شہید ثناءسنگت کی لاش تربت مرگاپ سے برامد ہوئی گویا یہ بھی آپ کا ایک اعزازتھا جس مقام کو شہید انقلاب شہید غلام محمد نے اپنے مقدس لہو سے اعزاز بخشا تھا ثناءسنگت جیسے عظیم انقلابی کی لاش بھی اسی مقام سے ملی۔آپ کی لاش پر تشدد کے بے تحاشا نشانات تھے جسم کو کئی جگہوں سے ڈرل کیا گیا تھا ایک ہاتھ توڑ کر اس کی گوشت جسم سے نکال دی گئی تھی شہید کے سینے اور جسم کے سیدھے حصے پر گولیوں کے32نشانات تھے مگر ان کا چہرہ بالکل سلامت اور منور تھا۔شہید ثناءسنگت انقلاب اور آزادی کے نام پر اپنی غلام سرزمین کی خاطر کی امر ہوگئے وہ تاریخ کا ایک سالم اور زندہ عکس ہیں اور انقلاب کی تکمیل تک انہیں جدوجہد کے گراں بار مراحل خندہ پیشانی سے عبور کرنے پر خراج دیتے رہینگے۔تاریخ ان پر نازاں اور سرزمین ان کے مقدس جسم کو اپنی آغوش میں لے کر فرخندہ ہے ۔

No comments:

Post a Comment